آسمان آپکا مُستقبِل کا گھر ؟
آپکا مُستقبِل کیسا ہو گا ؟
کون اپنے مُستقبِل کے بارے سوچ سکتا ہے بغیر اِس بات کو خاطِر میں لاۓ کہ کیا موت کے بعد بھی حیّات ہے ؟ اِنسان اپنے ذہن سے موت کے بعد کے مُمکِنہ احوال کے خیالات سے چھُٹکارا نہیں پا سکتا لیکِن اُسکی کوشِش ضروُر ہوتی ہے کہ وُہ اِن خیالات کو اپنے ذہن سے نِکال باہر کرے ۔ وُہ موت ، جنت اور جہنم کے خیالات کو کہیں دُور مُستقبِل میں ڈال کر اپنے آپ کو اِس زِندگی کے مُعاملات میں مصروُف کر لیتا ہے ۔ ( متیؔ ۲۴ ۴۸ ؛ واعظ ؔ ۸ ۱۱ ) لیکِن سچائی تو یہ ہے کہ بہ دیر یا جلد ہمیں ایک اِنتخاب تو کرنا ہی ہے ۔ اگر ہم اِس سوال کے بارے نہیں سوچتے تو ہم یقیناً ہمیشہ کے لِۓ بھٹک چُکے ہیں ۔
منزلیں صِرف دو ہی ہیں
آسمان کا جلال اور دوزخ کی دہشت ہمیں قائل کرتی ہے کہ ہم آسمان کو اپنی ابدی منزل بنائیں ۔ اگر ہمیں اِس اِنعام کو پانا ہے تو پھِر ہمیں ایک اِنتخاب اور ایک فیصلہ کرنا ہو گا ۔ یہ تو یقینی بات ہے کہ گُناہ دوزخ میں داخِل نہیں ہو سکتا ۔ اُن سب کے لِۓ دوزخ میں ہمیشہ کی سزا ہوگی جو اِس زِندگی میں اپنے گُناہوں کی معافی کے طلبگار نہیں ہوتے ۔ ’’ اور یہ ہمشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زِ ندگی ۔ ( متیؔ ۲۵ ۴۶ )
آسمان ۔ تمام نجات یافتہ لوگوں کا گھر
.... ڪا مکمل متن یا حوال آسمان آپکا مُستقبِل کا گھر ؟
نجات یافتہ لوگوں کے لِۓ جو کہ مسیح ؔ کے خوُن سے دھوۓ گۓ ہیں ، آسمان ایک خاص مقام ہے ۔ ( مُکاشفہ ۷ باب ۱۳ اور ۱۴ آیات ) یہ اُنکا گھر ہے ۔ اِس آسمانی گھر کی خواہش زبوُر نویس کی آرزُو جیسی ہے ۔ ( زبُور ۶۳ ۱ ) ’’ خُشک اور پیاسی زمین میں میری جان تیری پیاسی اور میرا جِسم تیرا مُشتاق ہے ۔ ‘‘ لیکِن وُہ جو جسمانی اور دُنیاوی سوچ کے مالک ہیں ، اُنکے لِۓ آسمان ایک بُہت ہی دُور دراز کی چیز ہے ۔ جو شخص خُدا کے پاک روُح پاک سے پیدا ہُوا ہے اُسکے لِۓ آسمان بُہت ہی نزدیک اور ایک حقیقت ہے ۔ وُہ دُنیا میں ہی اپنے ابدی آسمانی گھر جیسا احساس پا لیتا ہے ۔
سچائی ، اِنکساری ، پاکیزگی اور مُحبّت جیسی خُوبیاں جو مسیحؔ نے عملی نموُنے کے طور پر پیش کیں ، خُدا کے فرزند ہونے کے ناطے سے ہمارے لِۓ بڑی بیش قیمت بن جاتی ہیں ۔ ہمارا دِل اِن مسیحی فضائل کی کاملِیّت اور اور پاکیزگی کے لِۓ تڑپتا ہے ۔ ( ۲ کرنتھیوں ۵ ۱ )
آسمان ۔ ایک نُورانی مقام
ہماری زمینی زِندگی میں بُہت سے اُتار چڑھاؤ آتے ہیں ۔ ہم بُہت سی ایسی چیزوں کا سامنا کرتے ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہوتی ہیں ۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم اپنے مُستقبِل میں جھانک سکیں لیکِن ہم ایسا کر نہیں پاتے ۔ نتیجتاً ہم مایُوسیوں میں گھِر جاتے ہیں ۔ یہ سب باتیں تاریکی سے تاویل کی جا سکتی ہیں ۔
آسمان صِرف روشنی کا مسکن ہے ۔ یہ وُہ مقام ہے جہاں خُدا موجوُد ہے ۔ ’’ خُدا نُور ہے اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں ۔ ‘‘ ( ۱ یوُحنا ؔ ۱ ۵ ) اُسکی روشنی میں کامِل فہم ہے ۔ اُسی میں ہمارا عِلم تکمیل پاتا ہے ۔ اُس میں ہمارے ماضی کی تمام خطائیں اور گُناہ مِٹ جاتے ہیں ۔ اِس روشنی میں باپ اور وُہ سب جو اُس میں قیام کرتے ہیں ، کے درمیان مکمل رفاقت ہو جاتی ہے ۔
آسمان کو ’’ نُور کے ساتھ مُقدسوں کی میراث ‘‘ قرار دیا گیا ہے ۔ ( کُلسیوں ۱ ۱۲ ) کلامِ ِ مُقدس
میں روشنی یا نُور کی صفات یا اوصاف میں عِلم ، پاکیزگی اور مُسّرت نُمایاں طور پر بیان کِۓ گۓ ہیں ۔ اِس آسمانی روشنی یا نُور میں کبھی کوئی خلل نہیں آتا بلکہ یہ ہمیشہ جاری و ساری رہتی ہے ۔ ’’ اور وہاں کبھی رات نہ ہوگی ۔‘‘ ( مُکاشفہ ۲۱ ۲۵ )
ٰآسمان ۔ خوف اور گُناہ سے پاک مقام
’’ اور اُس میں کوئی ناپاک چیز یا کوئی شخص جو گھنونے کام کرتا ہے یا جھُوٹی باتیں گھڑتا ہے ہر گِز داخِل نہ ہو گا ۔ ( مُکاشفہ ۲۱ ۲۷ )
حوصلہ شِکنیاں ، مایوُسیاں ، آزمائیش اور گُناہ سب زمینی زِندگی کا حِصہ بخرہ ہیں ۔ یہ کبھی بھی آسمان کے خُوبصُورت مقاموں میں داخِل نہیں ہو پائیں گے ۔
مُکاشفہ ۲۱ ۴ میں ہم پڑھتے ہیں ، ’’ اور وُہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسوُ پونچھ دے گا ۔ اور اِسکے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا ۔ نہ آہ و نالہ نہ درد ۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں ۔‘‘ ایک مسیحی کے لِۓ آسمان ہمارے آرام کی تکمیل ہے ، اور ہمارے سفر کا اختتام ۔ ایک مسیحی جانتا ہے کہ جیسے خُدا نے اُسکے دُنیا میں آنسوُ پونچھ دِۓ ہیں اُسی طرح آسمان کی کامِل بادشاہی میں اُسکے سب دُکھ درد مِٹ جائیں گے ۔
بچاۓ جانے والوں کی حیاّتِ جاوِدانی
اِس زمین پر اِنسانی رِشتے ہم سب کے لِۓ بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ دُوسروں کی خُوشیاں اور غم ہمارے جذبات کو مُتاثر کِۓ بغیر نہیں رہتے ۔ خاندنی رِشتے ہمارے لِۓ بڑے معنی رکھتے ہیں اور اپنوں سے جُدائی بڑی ہی درد ناک ثابت ہوتی ہے ۔ لیکِن یہ سب ہمارے اِنسانی وجوُد کا لازمی حِصہ ہیں ۔
جب یسوُع ؔ عدالت کے لِۓ دوبارہ آۓ گا تو سب چشمِ زدن میں بدل جائیں گے ۔ مُردے زِندہ ہو جائیں گے ۔ فانی بدن جو بدی اور گُناہ کی بدولت گلنے سڑنے سے بچ نہیں سکتا تب لافانی بن جاۓ گا ۔ ’’ اور مُردے غیر فانی حالت میں اُٹھیں گے اور ہم بدل جائیں گے کیونکہ ضروُر ہے کہ یہ فانی جِسم بقا کا جامہ پہنے اور یہ مرنے والا جِسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہنے ۔ ‘‘ ( ا کرنتھیوں ۱۵ ۵۲ ، ۵۳ )
اِس نئی حالت میں خاندانی رِشتے ہمارے لِۓ پہلے جیسے معنی نہیں رکھیں گے ۔ یسوُعؔ نے سِکھایا کہ آسمان پر اُزدواجی رِشتے نہیں ہونگے ۔ ( متی ؔ ۲۰ باب ۳۰ آئت ) اِس دُنیاوی زِندگی کے جذبات خُدا کی حضُوری میں پائی جانے والی خُوشیوں کے سامنے ماند پڑ جائیں گے ۔ نجات پانے والوں اور خُدا کے برّے کے درمیان ایسا کُچھ نہیں آۓ گا جو اُنکے رِشتے کو مُتاثر کر سکے ۔
مُقدسین وُہ وُہ مناظر دیکھیں گے جو فانی آنکھوں نے کبھی نہ دیکھے ہوں نہ اُنکا تصوّر کیا ہو ۔ وُہ ایسی نئی نئی باتیں سُنیں گے جو فانی سماعت نے پہلے کبھی نہ سُنی ہوں ۔ اور وُہ ایسا حیرت انگیز عِلم حاصِل کریں گے جِو کبھی کِسی کے دِل یا وہم و گُمان میں بھی نہ گُزرا ہو ۔
یسوُعؔ اور اُسکے لوگ جلال پائیں گے
وُہ دِن دُور نہیں جب خُداوند یسوُعؔ المسیح دُنیا پر بسنے والے تمام لوگوں پر ظاہِر ہوں گے ۔ ہر بشر اُس کے سامنے اپنی اپنی عدالت کے لِۓ کھڑا ہو گا ۔ ( متی ؔ ۲۵ ۳۱ تا ۳۴ ) اُس کے سچّے پیروکار اگرچہ کہ اِس دُنیاوی زِندگی میں ا ُن سے نفرت اور حقارت سے پیش آیا گیا ایک دِن آسمانی جلال میں اُٹھائیں جائیں گے ۔ وہاں وُہ ہمیشہ ہمیشہ کے لِۓ خُدا کی حمد و ثنا کر سکیں گے ۔ فنا لافانیت سے بدل جاۓ گی ۔ ’’ اور جب یہ فانی جِسم بقا کا جامہ چُکے گا تو یہ مرنے والا جِسم حیاتِ ابدی کا جامہ پہن چُکے گا تو وُہ قول پُورا ہو گا جو لِکھا ہے کہ موت فتح کا لُقمہ ہو گئی ۔‘‘ ( ا کرنتھیوں ۱۵ ۵۴ ) ۲ کرنتھیِوں ۵ ۱ بھی دیکھیں ۔
اِس زمینی زِندگی میں مسیحی یمانداروں کو بُہت سی آزمایشوں ، مُشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن جِن ایماندروں نے فضل کی بدولت نجات دہندہ پر ایمان اور اِستقلال کا مظاہرہ کیا ہے وُہ آسمانی بادشاہی کے وارِث ہونگے ۔ زمین کے ہر خِطہ سے اور ہر زبان بولنے والے لوگ جنہوں نے اِیمان کو قائم رکھا سب وہاں ہوں گے ۔ یہ عظیم اور شمار سے باہر جمِ غفیر جِسے گناہوں کی مُعافی اور مسیح کے خوُن سے پاکیزگی حاصِل ہو چُکی ہو گی ، آسمان کی بادشاہی کا وارِث ہو گا ۔ ( مُکاشفہ ۱۹ ۷ تا ۹ )
وُہ سب روُحیں جو اِس زِندگی میں نجات پا چُکی ہیں آسمان پر جلال پائیں گی ۔ یہ کِس قدر خُوبصوُرت بات ہو گی جب خُدا کی کلیسیا کی شادی خُدا کے برہّ سے ہو گی ۔ یہ وُہ جلالی منظر ہو گا جو بیان سے باہر ہے ۔ ( مُکاشفہ ۱۹ ۷ تا ۹ )
آسمان اِنسانی فہم سے بعید
’’ اب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دِکھائی دیتا ہے مگر اُس وقت روُبروُ دیکھیں گے ۔ اِس وقت میرا عِلم ناقص ہے مگر اُس وقت ایسے
پوُرے طور پر پہچانوں گا جاؤں جیسے میں پہچانا گیا ہوں ۔ ‘‘ ( ۱ کرنتھیوں ۱۳ ۱۲ )
آسمان کا جاہ و جلال نہ کُلی طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی بیان کیا جا سکتا ہے ۔ ہمارے ذہین صِرف اُن چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جِن کو ہم دیکھ سکتے ہیں اور محسوُس کر سکتے ہیں ۔ جبکہ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ آسمان میں ہم خُدا کی حضوُری میں رُوحانی وجوُد رکھیں گے ، خُدا نے ہم پر ہمارے اُس ابدی گھر کے بارے سب کُچھ ظاہر نہیں کیا ۔
پہلے مسیحی شہید ، ستِفنس ؔ کو آسمان کی ایک جھلک دِکھائی گئی ۔ جب اُسے اُسکے ایمان کے سبب سے سنگسار کیا جا رہا تھا ، ’’ اُس نے روُح القُدس سے معموُر ہو کر آسمان کی طرف غور سے نظر کی اور خُدا کا جلال اور یسوُعؔ کو خُدا کی دہنی طرف کھڑا دیکھا ۔ ‘‘ ( اعمال ۷ ۵۵ )
اگر چہ آسمان کے بارے بہت کُچھ وضاخت سے بیان نہیں کِیا جا سکتا ، ہم یہ ضروُر جانتے ہیں کہ ماضی کے مُختلف ادوار کے ایمانداروں کی طرح خُدا کے بناۓ ہوُۓ شہر میں ہم بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لِۓ رہنا چاہیں گے ۔ عبرانیوں ۱۱ باب کی ۱۰ آئت میں ہم پڑھتے ہیں کہ ابرہام ؔ ’’ اُس پائیدار شہر کا اُمیدوار تھا جِس کا معمار اور بنانے والا خُدا ہے ۔ ‘‘ عبرانیوںؔ ۱۱ باب ۱۳ تا ۱۶ آیات بھی پڑھیۓ ۔
کیا ہم بھی وہاں ہونگے ؟
اِس زِندگی کے احتتام پر ہم کہاں جائیں گے ؟ کیا ہم آسمان پر جائیں گے ؟ خُدا کا روُح ہمارے دِلوں پر بڑی نرمی سے دستک دیتا ہے اور ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ ہم خُود کو اُس ابدی مُستقبِل کے لِۓ تیار کریں ۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضروُرت ہے کہ ہمیں خُدا کی ضروُرت ہے ۔ اِبتدا ہی سے گُناہ میں پڑنے کی وجہ سے اِنسان نے خُدا کی خوُشنوُدی کھو دی ۔ اپنے گُناہوں سے توبہ کرنے اور مسیح ؔ کے پاک خوُن کی بدولت مُعافی کے ذریعے ہم خُدا کے ساتھ یہ رِشتہ دوبارہ بحال کر سکتے ہیں ۔ تب ہی خُدا ہمیں قبوُل کرتا اور مُعاف کرتا ہے ۔ یوُں ہم خُدا کے کلام اور اُسکے پاک روُح کی بدولت خُدا کے فرزند بنتے ہیں ۔ ( ( یوُحناؔ ۳ ۵ ؛ ۱ ۱۲ ) جو اِطمینان اور خوُشی ہمیں حاصِل ہو گی وُہ اُس آسمانی گھر کی خُوشیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو گی ۔
ہر روُح اور ہر بشر اپنے دِل میں اِس بات کا مکمل یقین کر سکتا ہے کہ اُس کے لِے ٔ آسمان پر ایک گھر تیار کِیا گیا ہے ۔ ( یوُحنا ؔ ۱۴ ۲ تا ۳ )